ناشتہ کرکے اس درویش کے انتظار میں بیٹھا رہا تقریباً 9-10 بجے کے قریب ایک ملنگ لمبا قد‘ چوغا پہنے غضب کی نظر رعب دار آواز ہوٹل کے ایک کونے میں آکر بیٹھ گیا۔ مالک ہوٹل نے ناشتہ پیش کیامیں برابر اس درویش کو دیکھتا رہا
یوں تو میں نے تحصیلداری کا امتحان کب کاپاس کرلیا تھا مگر ایک سال ہوگیا دفتر کے چکر لگاتے لگاتے میرے ہم منصب ساتھی تقریباً تقریباً اپنے عہدوں پر بحال ہوچکے تھے مگر میری قسمت میرا ساتھ نہ دے رہی تھی والدین بوڑھے تھے میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ آمدنی برائے نام تھی گزر اوقات بڑی مشکل سے ہورہی تھی۔ ماہ جنوری 2004ء کے درمیانی دن تھے‘ اپنی قسمت جگانے پھر دفتر لاہور آیا‘ متعلقہ کلرک سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ کچھ دن انتظار کریں‘ دفتر کے چکر لگا لگا کر بے زار اور تنگ آگیا تھا۔
واپس گھر آتے آتے رات ہوگئی جب میں کبیروالا اڈے پر بس سے اترا تو رات کے نو بج چکے تھے اور موسم انتہائی خراب ہوگیا تھا۔ میں نے کبیروالا سے ماڑی سہو جانا تھا‘ جانے کیلئے تانگے اور رکشہ والے اپنے اپنے گھروں کو جاچکے تھے‘ میں نہر کے کنارے کنارے پیدل گھرجانے لگا‘ تقریباً دو میل سفر طے کیا ہوگا‘ ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ گرج چمک شروع ہوگئی‘ گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا‘ راستہ بھی اچھی طرح نہ دکھائی دیتا تھا‘ دل میں خوف اور گھبراہٹ پیدا ہو گئی‘ اچانک موسلادھار بارش شروع ہوگئی‘ کپڑے بارش سے بھیگ گئے‘ میں نے راستے میں ایک کچی مسجد میں جانے کا ارادہ کیا تو بجلی غائب ہوگئی‘ ڈرتے ڈرتے مسجد میں پناہ لی تو مسجد سے ایک آدمی نکلتے دیکھا اس آدمی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ کہاں جانا ہے؟ کہاں کے رہنے والے ہو؟ کدھر سے آرہے ہو؟ میں نے اس آدمی کو اپنا نام‘ اپنے والد کا نام اپنی قوم اور مقصد اور آپ بیتی سنائی۔وہ آدمی کہنے لگا میں آپ کے خاندان کو اچھی طرح سے جانتا ہوں سبھی شریف لوگ ہیں۔ اس آدمی نے اپنا نام بتایا اور کہا جب لاہور جانا تو مجھے ضرور مل کرجانا۔ صبح تک بارش تھم چکی تھی‘ آسمان صاف ہوگیا اور موسم خوشگوار ہوگیا میں مسجد سے نکل کر اپنے گھر پہنچ گیا۔ اگلے دن میں نے اپنے والدصاحب کو رات والی کہانی سنائی تو والد صاحب کہنے لگے جب بھی لاہور جاؤ تو ان صاحب سے مل کر جانا شاید قسمت ساتھ دے جائے اور غریبی کے دن کٹ جائیں۔ میں نے تقریباً بیس دن بعد پھر جانے کا ارادہ کیا اور والد صاحب سے خرچہ پانی لیا تو اباجان کہنے لگے کہ اس آدمی سے ضرور مل کر جانا۔ دن کے تقریباً دس بجے میں ان صاحب کے گاؤں پہنچ گیا کسی کے پوچھنے پر اس کا گھر معلوم کیا اور دستک دی‘ تھوڑی دیر بعد یہ آدمی گھر سے نکلا میں نے اس رات والا اپنا تعارف کرایا تو کہنے لگا میں سمجھ گیا ہوں۔ مجھے کہنے لگا آپ یہاں ٹھہریں میں گھر سے ہوکر آتا ہوں چند لمحوں بعد یہ آدمی واپس گھر سے آگیا اور ایک کاغذ کی چٹ دی اور کہا اس کو کھول کر پڑھنا نہیں ہے اس میں راز کی بات ہے۔ یہ چٹ دفتر جانے سے پہلے اس آدمی کو دینا ہے پتہ مجھے زبانی بتادیا کہ لاہور میں فلاں جگہ پر ایک چھوٹا سا ہوٹل ہے اس ہوٹل پر تقریباً 9-10 بجے صبح ایک مجذوب آتا ہے اس کو یہ چٹ دے دینا۔ چٹ لیکر اور اللہ کا نام لیکر میں لاہور روانہ ہوگیا۔ رات گئے لاہور پہنچا اور شب گزاری کیلئے حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے دربار پہنچ گیا۔ وہاں نوافل پڑھے اور عاجزی و انکساری کیساتھ دعائیں مانگیں‘ صبح نماز فجر ادا کرکے میںاس جگہ کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر ہوٹل کو تلاش کیا سادہ سا ہوٹل تھا‘ ناشتے کی غرض سے میں بیٹھ گیا اور ناشتہ کرکے اس درویش کے انتظار میں بیٹھا رہا تقریباً 9-10 بجے کے قریب ایک ملنگ لمبا قد‘ چوغا پہنے غضب کی نظر رعب دار آواز‘ ہوٹل کے ایک کونے میں آکر بیٹھ گیا۔ مالک ہوٹل نے ناشتہ پیش کیامیں برابر اس درویش کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ کس طرح میں اس کے پاس پہنچوں‘ ہمت نہ پڑتی تھی۔ اس دوران یہ درویش کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تو میں نے ہمت کرکے سلام کہہ کر چٹ پکڑا دی۔ چٹ کو دیکھا‘ پڑھا اور مسکرا دیا اور مجھے غورسے اور گھور گھوردیکھنے لگا۔ پھر کہنے لگا میرے ساتھ آ۔۔۔ میں اس کے ساتھ چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم دفتر کے قریب پہنچ گئے‘ میں گیٹ کے باہر کھڑا ہوگیا وہ مجذوب اندر چلے گئے تقریباً بیس منٹ بعد یہ مجذوب دفتر سے گیٹ کی طرف آتے دکھائی دئیے‘ آتے ہی رعب دار لہجے میں کہنے لگے لو تمہارا کام ہوگیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ جس آدمی نے تمہیں چٹ دی ہے اس کو کہہ دینا کہ تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا اور اچانک غائب ہوگئے۔ میں پریشان بھی اور خوش بھی۔ راستے میں میں نے کاغذ کو پڑھا تو احمد پور سیال کی تعیناتی تھی۔3بجے میں کبیروالا پہنچ گیا‘ خوشی خوشی اُن صاحب کے گھر پہنچا کہ اسے خوشخبری سناؤں تو کیا دیکھتا ہوں اس کے گھر کے باہر لوگ اکٹھے ہیں میں نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آج تقریباً 10،11 بجےوہ صاحب بقضائے الٰہی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ میں اُن کو مبارکباد بھی نہ دے سکا پھر ان کے جنازے میں شرکت کرکے اپنے گھر کو روانہ ہوگیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں